حجت‌‌الاسلام سعید فخرزاده، کے ساتھ ایک نشست

ہمارے معاشرے میں تاریخ سے صحیح طور فائدہ حاصل نہیں کیا جاتا اسے صرف چٹخارے کے طور پر اور عبرت حاصل کرنے کے لئے پڑھا جاتا ہے ،جبکہ تاریخ کا اصل کام انسانی علوم کے میدان میں تحقیقات کی راہ ہموار کرنا ہے Humanitiesعلوم انسانی کا ایک بہت بڑا حصہ معاشرے کی رفتار و کردار پر مشتمل ہے


2015-8-6


حجت‌‌الاسلام سعید فخرزاده،کہ جو تاریخ شفاہی یا زبانی تاریخ کے شعبے کے سرپرست ہیں کتاب و انقلاب اسلامی کے سلسلے میں ایک نشست میں انھوں نے کہا صحیح تاریخی مطالب تک پہنچنے کے لئے تکرار بہت ضروری ہے کیوں کہ جھوٹ کا امکان ہے البتہ تاریخ میں اصلیت  تک  تو نہیں پہنچا جاسکتا لیکن اس اصل کی شبیہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

نامہ نگار کتاب ِ ایران ﴿ایبنا﴾ گروہ تاریخ وسیاست ۔چند سالوں میں تاریخ شفاہی ،انقلاب اسلامی ادب کے دفتر اورتاریخ شفاہی کے آرٹ کونسل ،اور ان جیسے ادراروں کی ہمت کی وجہ سے فروغ پزیر ہوئی اور یہ نسل جوان کو انقلاب کے ہمراہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔سعید فخر زادہ ان برجستہ شخصیات میں سے ہیں کہ جنھوں نے واقع نگاری اور تاریخ شفاہی کو روشن کیا ہے انھوں نے اپنی ایک نشست میں کہ جو کتاب و انقلاب اسلامی کے سلسلے میں تھی اپنی ایک گفتگو میں ابنیا کو اپنے تجربات کے بارے میں بتایا ۔

فخر زادہ ایک فوجی گھرانے میں پیدا ہو ئے لیکن ان کے داد ا اور چچا عالم دین تھے ان کے گھر میں سیاسی اور مطالعاتی فضا قائم  تھی انھیں بچپن سے ہی مطالعے کا شوق تھا اور ابتدا ہی سے تاریخ اور داستان کی جانب جھکاو ہو ا،لیکن انقلابی فضا میں آمد اور شریعتی اور مطہری کی کتابوں کا مطالعہ  بھی کیا کرتے تھے ،یہ تاریخ  دان انقلاب اسلامی کے بعد رضاکار بن گیا لیکن مطالعہ کی دلچسپی اور استاد مطہری کی شہادت کے بعد  حوزہ یعنی دینی مدرسے میں داخل ہو ئے تاکہ خود اپنے لئے پیش آنے والے سوالات کے جوابات حاصل کر سکیں اسی وجہ سے آیت اللہ مجتہدی کے مدرسے میں داخل ہو ئے اسی دوران وہ تبلیغات دینی کے سلسلے میں جنگ میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔

فخر زادہ سن ۸۳ء سے واقع نگاری کے کام سے آگاہ ہیں اور ۸۴ء سے لیکر آخر جنگ تک جنگی آپ بیتیوں کے کام میں مشغول رہے ،دفاع مقدس کے آثار کو جمع و محفوظ کرنے کے لئے کمر کس کر میدان عمل میں آئے ، اور جنگی اطلاعات اور اس کے اثارکو تحقیق کرنے والوں کو دیا کرتے تھے دو سال تک دفاع مقدس یعنی جنگ کے ایام ،کے آثار کو جمع کرنے کی ذمہ داری سنبھالی تاکہ یہ کام ایک شعبے کی شکل اختیار کر جا ئے اس شعبے کے قیام کے بعد سے آج تک اس تک اس عہدے پر فائز ہیں ۔

آپ دوسرے مناصب مثلاً ثقافتی مرکز کی سربراہی ،شہید صیاد شیرازی کے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ مشارکت ،انجمن تاریخ شفاہی ،دفاع مقدس کی نامہ نگاری کی رکنیت پر بھی فائز رہے۔

جناب فخرزادہ کی ایبنا سے گفتگو در جہ ذیل ہے ،

س: جناب فخر زادہ ، اپنے اولین اقدام کے بارے میں بتائیے کہ تاریخ شفاہی کے شعبے سے کب منسلک ہو ئے اور کیا کیا کام انجام دئیے ؟

ج: ۱۹۹۱ ء میں مجھے اور جناب زین العابدینی صاحب،جو فوج  کے ایک شعبے سے تعلق رکھتے تھے اور جنگی یاداشتوں کو جمع کیا کرتے تھے، یہ خیال آیا کہ فوج جن دو زاویوں سے جنگی واقعات کو دیکھتی ہے ان پر کام کیا جائے لیکن یہ کام بہت طویل اور سخت تھا اس کام کے لئے ۳۰ ہزار گھنٹوں سے زائد کیسٹیں کہ جو پرانے طریقے سے رکارڈ کی گئیں تھی کہ جن میں کمانڈروں کی گفتگو ،دستور عمل ،آپریشنز کی توجیہات وغیرہ وغیرہ جیسی چیزیں درکار تھیں یہ تمام چیز بہت نایاب تھیں دنیا میں کہیں بھی ایسا جنگی کام نہیں ہوا ہے ،اس وقت کے باہوش کمانڈرز اور دیگر آفیسرز نے خود کو اس کام کے لئے تیار کیا اور اس گروہ کے ساتھ تعاون کیا جبکہ یہ لوگ خود اس کام کو انجام دینے کی جانب مائل نہ تھے کیوں کہ ہر جگہ ایک رکارڈکرنےوالا چاہیے تھا کہ جو ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ رہے

اس کے علاوہ سپاہیوں کے حالات زندگی کو محفوظ کرنے کے لئے فوج میں ایک شعبہ بنایا گیا ،اس میں یہ دیکھا جاتا تھا کہ سپاہی کس طرح سے سرحد پر آیا یعنی کیا وجہ تھی کہ یہ جنگ میں حصہ لینے آیا ،ان کی عبادتیں ان  کے کام  ،ان کی  شہادتیں  اورجب وہ فارغ رہا کرتے تھے تو کیا کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ان سب کو محفوظ کیا جاتا تھا ۔ جو لوگ وہاں تھے سب سے پہلے وہ کسی بھی بات کو خبر کا انداز دیتے اور پھر بعد میں اسے تاریخ کا حصہ قرار دیتے ،ابتدا میں میں بھی اس گروہ کے ساتھ منسلک رہا اور سپاہیوں کے حالات زندگی کو محفوط کیا کرتا تھا بعد میں یہ کام پھیلتا ہی چلا گیا مطالب بیان کرنا انھیں مرتب کرنا ،محفوظ کرنا ،درجہ بندی کرنا موضوع بندی کرنا اس طریقے سے ہمارے بہت سے نقص آشکار ہو ئے اور ہم نے اپنے کام کو مزید اچھی طرح سے انجام دیا ،اس زمانے میں ہمارے رابطے اور بجٹ دنوں کم تھے اور ہم ٹیپ رکارڈ کے سیل اور کیسٹ کی خریداری کے لئے مشکل سے دوچار ہوا کرتے تھے ان محدود امکانات پر اپنی آزمائش اور خطا ؤں کے ذریعے ہم نے اپنے کام کو مکمل کیا اور اپنے نقائص کو دور کیا ۔

رجسٹریشن کے عمل اور یاداشتوں کو محفوظ کرنے کے دوران یہ احساس ہو اکہ سرحد پر جو ماحول حاکم ہے وہ اپنی بنیاد و اساس رکھتا ہے وہ لوگ کہ جو جنگ کا محور تھے وہ لوگ تھے جو انقلاب سے پہلے بھی جنگجو تھے اور ان کا  جنگجو صفت ہونا جنگ میں ظاہر ہوا ،اُسی زمانے میں ہمیں یہ خدشہ ہوا کہ اگر انقلاب کے بارے ہم نے  کو ئی کام نہیں کیا  تو ہم اس اساس کو بچا نہیں سکتے ،جنگ کا موضوع بہت وسیع تھا اتنا کہ ہمیں حوادث انقلاب پر کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ۸۹ ء اور ۹۰ء میں یہ کام نہیں ہوا البتہ کچھ محدود پیمانے پر تو کام ہو رہاتھا جیسا کہ نہضت امام خمینی کے نام سے ایک کتاب لکھی گی  کہ جو سید احمد زیارتی نے لکھی تھی اور تاریخ انقلاب کے ایک شعبے کی بنیاد رکھی گی کہ جو بعد میں بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا ۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہم سپاہیوں کی یادگاروں کو جمع کرنے کے دروان اس بات کی جانب متوجہ ہو ئے کہ ان سب کا تعلق حوادث انقلاب  سے ہے اور اس پر کام کو شروع کیا تو آرٹس کونسل اور مرتضیٰ سرہنگی سے جاملے البتہ ان سے میری آشنائی اس زمانے کی ہے کہ جب ہم جنگی اسیروں کی آپ بیتیاں جمع کر رہے تھے ہم نے انقلاب کے محفوظات کو آرٹ کونسل کے موجود ہ سرپرست جناب زم اور جناب سرہنگی کے تعاون سے انجام دیا اور مختصر وسائل کے ساتھ ہم نے تاریخ شفاہی کا یک دفتر سن ۹۳ء میں قائم کیا ہم نے تابحال ۷ ہزار گھنٹوں پر مشتمل انٹرویو کا انجام دیا ہے ۔

س: تاریخ شفاہی کے شعبے نے کتنے سالوں میں کیا کام انجام دیا ہے؟

ج: سن ۶۱ء سے لیکر ۸۱ ء تک ہمارا پروجیکٹ ہے ،۷۹ء سے ۸۱ء تک پر طلاطم انقلاب تھا اور اس کے حوادث جیسے جمہوری اسلامی کے انتخابات ،قانون اساسی کی تصویب ،اداروں کا بنانا ،بغاوت کرنے والے چھوٹے چھوٹے گروہوں سے  نزاع،جنگ تحمیلی کا آغاز اور امر یکہ کے جاسوسی اڈے کا خاتمہ یہ اتنے اہم حوادث ہیں کہ انھیں انقلاب کے حوادث کے ساتھ رکھا گیا ہے ۔

س: تاریخ شفاہی کے شعبے اور ان کا لوگوں سے انٹر ویو لینے کا انداز و سبب کیا تھا ؟

ج: اس کا بنیادی سبب تو ادبی کام کرنا تھا صرف تاریخ جمع کرنا نہیں تھا یعنی ہم اچھے یادگار واقعات کی تلاش میں رہتے تھے اور انھیں دوسرے شعبوں کے حوالے کرتے تاکہ اسے وہ آرٹ کے کام میں لائیں اور فیلم و کتاب میں تبدیل کر یں ۔

س: کیا تاریخ شفاہی کا شعبہ کسی خاص موضوع پر بھی  کتاب شائع کرتا ہے ؟

ج: ریسرچ کے کام میں جو بنیادی معلومات ہو تی ہیں وہ موضوعی ہو تی ہیں بہت سے ایسے موضوع جن کا تعلق انقلاب سے ہے اور ہم اس وجہ سے ان سے ناآگا ہ ہیں کہ وہ موضوع قلم بند نہیں کئے گئے۔ اس میں بہترین کام وہ انٹرویوز تھے جو مشہور شخصیات نے انقلاب کے حوالے سے دیئے تھے ،جس وقت ہم  نے یہ کام شروع کیا تھا اس وقت لوگوں کا مزاج یاداشتوں کو بیان کرنے کے سلسلے میں دور حاضر کی مانند نہیں تھا ،کچھ انڑویو زکے  کے بعد انہیں مرتب کیا گیا ،١۵ خرداد کے بارے میں ریسرچ ،امریکی جاسوسی کے اڈے کی تسخیر ،نوفل لوشاتو ، دھہ فجر ، پہلوی حکومت کے سیاسی قید خانے ،انقلاب میں خواتین کا کردار ، بیرون ملک اور اندرون ملک طالب علموں کا کردار ،انتخابات ،ان تمام موضوعات پر ہم نے کام کیا ہے اور ان کا ماحصل آج ١۰  جلدی کتاب جو موضوع کی ترتیب کے ساتھ شائع کی گئی ہے کی صورت میں موجود ہے۔

س: جن لوگوں نے پہلوی سرکار میں جو کردار ادا کیا کیا ان لوگوں کی آپ بیتی کو تاریخ شفاہی کا شعبہ جمع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جیسے حسین دھباشی نے تاریخ شفاہی میں پہلوی سرکار کے دوسرے دور کے ریسرچ کی ہے ؟

ج: ہماری زیادہ تر توجہ لوگوں میں وہ تحرکات ہے جو انقلاب سے پہلے وجود میں آئے  اور ایک دوسرے سے مل گئے اور پھر ایک انقلاب کی صورت اختیار کر گئے ،ہم ان لوگوں کی دلیل کو حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جنھوں نے انقلاب کی راہنمائی کی لہذا پہلوی سر کار کی شخصیات کے انٹرویو لینے سے پہلے ہمارے پاس انقلاب کا علم ہونا چاہے کہ انھوں نے کیوں قیام کیا ،کیا عوامل تھے اور دیگر موضوعات ،اسی وجہ سے ہماری اولین ترجیح انقلابی تھے ۔

وہ گروہ کہ جو انقلاب میں کام کر رہے تھے دسیوں ہزار گھنٹوں کے انڑویو ز درکا ر تھے اگر ہمارے پاس امکانات ہوتے تو یہ کام پانچ یا چھ سالوں میں تمام ہو جا تا پھر اس کے بعد حوادث انقلاب کے  موضوع کی درجہ بندی ہو تی ،پھر پہلوی سرکار کے افرا د کے پاس جاتے لیکن کیوں کہ ہمارے پاس وہ اطلاعات نہیں تھیں جو ہمیں چاہیے تھیں لہذا ہم نے انقلابی گروہ کو ترجیح دی یقینی طور پر پہلوی سرکار کے کچھ موضوع ہمارے دفتر میں ہوں گے مگر یہ کہ ان میں سے کچھ افرا د ملک سے باہر رہتے ہیں اور ہمارے امکانات اس سلسلے میں محدود ہیں ۔

ابھی یہ کام نہیں ہو سکتا ،جناب دھباشی نے بڑی محنت و مشکلات و وافر مقدار میں پیسہ خرچ کر کے ،کئی سالوں میں   پہلوی سرکار کے دوسرے دور میں جو ان کے خلاف کام ہو اہے وہ بھی بہت محدود پیمانے پر جمع کر پا ئے ہیں ۔

س: جو بھی انٹر ویو ہوئے ہیں یا جو کچھ بھی محفوظ ہوا ہے بغیر کسی سنسر کے اس پر کام ہوتا ہے یا بہت سے دلائل کی بنا پر اس میں سے کچھ سنسر کی نظر ہو جاتا ہے ؟

ج: ہم نے ان سب کو جمع کرنے میں کو ئی بھی چیز سنسر نہیں کی جو کچھ بھی ہے سب کا سب محفوظ ہے ،شاید دو یا تین فیصد ایسے موارد ہو ں گے کہ جب وہ کتابی صورت میں شائع ہو ئے تو کچھ لوگوں کی عزت کی خاطر اور کچھ قومی سلامتی کی بناپر کہ کہیں یہ ملکی سلامتی کے لئے ضرر رساں نہ ہو ان باتوں کو آپ بیتی بیان کرنے والے کی اجازت سے سنسر کیا ہو تو ہو ،تالیف اور باقاعدگی سے موضوعات کی ترمیم ہو تی ہے لیکن وہ یاد داشت اور اس کو بیان کرنے والے کا انداز محفوظ رہتا ہے اور جو کچھ بھی تبدیلی آتی ہے وہ انٹر ویو دینے والے کی نظر کے مطابق ہو تی ہے ۔

س: فی الوقت محفو ظ شدہ دستاویزات تک رسائی ہو سکتی ہے ؟

ج: جی کیوں نہیں کچھ محدودیت ہے لیکن اس بات کا امکان ہے کہ انٹر ویو دینے والے کی مرضی سے ان دستاویزات تک رسائی ہو جا ئے، کیوں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کو محقق صرف ایک ہی مطلب کو لیتا ہے اس طرح اس میں ایک تبدیلی پیدا ہو جا تی ہے لہذا اس کی اجازت نہیں لیکن اگر چناو درست انجام دیا ہے تو اس سے استفادہ کرنے کی اجازت دی جا تی ہے ۔

س: تاریخ شفاہی کے شعبہ نے آرٹ میں دھہ فجر کے حوادث کے بارے میں کیا کام انجام دیا ہے؟

دھہ فجر کے سلسلے میں ہم نے جعفر گلشن صاحب کی سرپرستی میں کچھ کام کیا ہے لیکن مسئلہ بجٹ کا ہے ۔

س: جناب فخر زادہ تایخ کا کیا کام ہے اور معاشرے کو اس سے کیا مدد ملتی ہے ؟،

ہمارے معاشرے میں تاریخ سے صحیح طور فائدہ حاصل نہیں کیا جاتا اسے صرف چٹخارے کے طور پر اور عبرت حاصل کرنے کے لئے پڑھا جاتا ہے ،جبکہ تاریخ کا اصل کام انسانی علوم کے میدان میں تحقیقات کی راہ ہموار کرنا ہے Humanitiesعلوم انسانی کا ایک بہت بڑا حصہ معاشرے کی رفتار و کردار پر مشتمل ہے عمرانیات کے ماہرین Sociologist کے لئے ضروری ہے کہ  سماج کی شناخت کے لئے اس کے بارے میں اطلاعات حاصل کریں،اور یہ اطلاعات تحقیق سے حاصل ہو تی ہیں لیکن ماضی کی معلومات مورخ ہمارے سپرد کرتا ہے مورخ ماضی کی تحقیق میں اسناد کی چھان پھٹک کرتا ہے اور معلومات کو ترتیب دے کر موضوع بناتا ہے۔،

علوم انسانی کے مفکرین کی تلاش و جستجو معلومات کو تاریخ دان کے اختیار دینے میں ہے ،دوسرے مضامین میں بھی محقق کو اپنی بات کے استناد کے لئے تاریخی معلومات کی ضرورت ہو تی ہے  ،ہماری یونیورسٹیز مفروضات کی بنا پر غیر ملکی تعلمی اداروں سے معلومات حاصل کرتی ہیں کیوں کہ ہم نے اس سلسلے میں کو تاہی و سستی کی ہے اور اپنی تحقیق و ریسرچ  کو دوسرے لوگوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں ،اگر ان افراد کے بارے میں تحقیقات  کا سرچشمہ حقیقت ہوتا تو معاشرہ کی شناخت بہتر طریقے سے ہو تی ، نامربوط اور نا منظم  معلومات ایک ایسا ڈھانچہ  بناتی ہیں جو کارآمد نہیں ہے ،معاشرے پر اس کے بہت برے نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔

معلومات کے صحیح نا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی درست  شناخت ہاتھ سے نکل جائے گی ،تمام دنیا میں  محفوظ شدہ دستاویزات کچھ عرصے کے بعد عام کر دی جا تی ہیں لیکن ایران میں ایسا کو ئی قانون نہیں ،اب تک ہم وزارت امور خارجہ ،فوج ،عدالتوں ،وزارت اطلاعات ،پہلوی سرکار کی  دستاویزات اور ان جیسے ادراروں کی دستاویزات کو عام لوگوں کے اختیار میں نہیں دے سکتے انھیں ہم محرمانہ سمجھتے ہیں ،اسی وجہ سے معلومات کا منبع دسترس میں نہیں   تبصروں کو معاشرے سے دور رکھا گیا ،ہمارے ملک میں تاریخ صرف ایک عبرت اور چٹخارہ ہے ،جمع شدہ معلومات کو محقیقن کو دینے میں کتراتے ہیں ۔

س: کس طرح سے تاریخ  میں صحیح مطالب تک پہنچا جا سکتا ہے ؟۔

ج: صحیح مطالب تک رسائی کی ایک راہ تواتر یعنی تکرار ہے کیوں کہ جھوٹ کا امکان مختلف زایوں سے موجود ہے البتہ تاریخ میں خود حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا لیکن حقیقت کی شباہت تک پہنچا جا سکتا ہے ۔

س: کیا تاریخ شفاہی کو زندہ تاریخ کہا جا سکتاہے ؟

ج: ہر تاریخ کا ہر واقعہ اپنا آغاز و انجام رکھتاہے لیکن ہم اس بات کو معین نہیں کر سکتے مثال کے طور پر ابھی انقلاب مشروطہ ہماری تاریخ میں چل رہا ہے ، بعص ایسے حاد ثات ہو ئے ہیں کہ اس نے اس دور کو زندہ کر دیا اور جو لوگ اس واقعہ میں موجود تھے ہم ان سے رابطے میں ہیں اس عنوان سے تاریخ زندہ ہے ،شفاہی تاریخ بھی ان افراد کا ذکر ہے کہ جو اس واقعے کے ایجاد کرنے والے تھے اور اس کے شاہد تھے ایک طرح سے ان سے رابطہ ہے اس لحاظ سے ہم اس تاریخ کو زندہ شمار کرتے ہیں ۔

س: تاریخ شفاہی میں دستاویزات کا کردار کیا ہے ؟

ج: جی مطالب کی درست ہونے یا نا ہوانے میں مکتوب دستاویز ات کی جانب دیکھا جاتا ہے مثال کے طور پر ایک خبر جو اخبار میں شائع ہو تی ہے یا ساواک کہ کو ئی بات کسی آپ بیتی میں بیان ہو تی ہے ،یا ساواک کا کو ئی  ثبوت ہے کہ جو آپ بیتی سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس مسئلے کو دستاویزات سے حل کیا جاتا ہے ۔

س: تاریخ شفاہی میں دوسرے ممالک سے کو ئی  (نمونہ) پٹرن Pattern لیا گیا ہے یا جتنی بھی کامیابی ہیں وہ ہماری محنت کا نتیجہ ہے؟

ج: ہم نے اس سلسلے میں زیادہ تر اپنے تجربات پر اعتماد کیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اسے  مکمل  کیا ہے کیوں کہ زبانی روایت ہماری دینی دستاویزات میں موجود ہیں ،البتہ تاریخ شفاہی اور آپ بیتی میں فرق ہے ،بہت سے اساتذہ نے  بیرونی وسائل کے زریعے سے بھی اس میدان میں کام کیا ہے اور تجربہ کے تبادلے کی کوشش کی ہے ،ہم تاریخ شفاہی  کو دوسر ے ممالک کے برخلاف  اصل کا درجہ دیتے ہیں نا کہ حواشی کا ،دوسرے ممالک میں تاریخ شفاہی کا طریقہ کار یونیور سٹی والاہے اس میں تاریخ شفاہی کی جزئیات پر زیادہ توجہ دی جا تی ہے ان سب کے باوجود ہم جزئیات پر بھی کام کرتے ہیں ۔

یہ دونوں طریقہ کار ایران میں آکر ایک ہو گئے ہیں یعنی ایک روایتی طریقہ اور دوسرا یونیورسٹی والا طریقہ ،انجمن تاریخ شفاہی نے کئی نمائشات لگائی اور بہت سی کتابیں شائع کی یہ انجمن ایک گروہ کے زیر تحت کام کرتی ہے ان میں علی ططری ،علی رضا کمرہ ای ،محسن کاظمی ،مرتضیٰ نورایی ،غلام رضا عزیزی ،مرتضیٰ رسولی پور ،حسن آبادی ،رحیم نیک بخت اور دورسرے افراد شامل ہیں ۔

س: آخر کیا وجہ ہے کہ تاریخ شفاہی میں حقیقت پسندی کی تاکید کی جا تی ہے ؟

ج: پہلی دلیل تو یہ کہ کبھی حافظہ کے ضعف کی وجہ سے بیان غلط ہو جاتا ہے ،دوسری یہ کہ بعض اوقات کو ئی آپ بیتی بیان کر رہا ہوتا ہے تو وہ ایک محدود زاویے کی جانب دیکھ رہا ہو تا ہے ،اور یہ اس کی معلومات کا فقدان ہوتا ہے جس کے سبب واقعہ کو صحیح طور پر بیان نہیں کر پا رہا ہوتا ہے ،تیسری دلیل لوگوں کے اپنے رویے اور ان کا سیاسی رجحان انھیں بعض حقائق کو بیان کرنے سے روکتا ہے ،چوتھی دلیل یہ ہے کہ بعض افرد مصلحت کی بنا پر کہانی کو کم یا زیادہ کر دیتے ہیں ،ایک دفعہ جنگ کے زمانے میں ،میں نے ایک سپاہی کا انٹرویو کیا اس نے اپنی گفتگو میں ایک لڑائی کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم اس میں جیت گئے لیکن ٹیپ رکاڈر کے بند ہو تے ہی اس معرکے میں شکست کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے مصلحت جان کر اس میں فتح کا ذکر کیا ،پانچویں دلیل یہ کہ بعض افرد اپنے آپ کو آگے بڑھانے کے لئے ایک ایسی داستان سناتے ہیں جس کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ،یہ سارے وہ موارد ہیں کہ جن کی وجہ سے حقیقت چھپ جا تی ہے لہذا حقیقت کو حاصل کرنے کی تاکید کی جا تی ہے ۔

س: تاریخ شفاہی میں داستانوں کی حقیقت پرکھنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟

ج: انٹرویو کے وقت بہت سی معلومات اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ صحیح اور غلط مشخص ہو جا ئے ،انٹر ویو کے بعد بھی دوسرے سے گفتگو کے دوران حقیقت معلوم ہو جا تی ہے جیسا کہ جناب محسن کاظمی صاحب نے ایک کتاب،،آپ بیتی عزت شاہی ،، کے نام سے لکھی کہ جس میں ١۰۰ افرد سے پانچ سال میں انھوں نے انٹرویو لیے  لیکن جب اس کتاب کو مقام معظم رہبری نے دیکھا تو فرمایا کہ میں اس کتاب میں موجزن صداقت سے خوش حال ہوں لوگوں کو اس صداقت کی ضرورت ہے ،، موضوع کے بارے میں تحقیق اور مختلف دستاویزات اس موضوع کے صحیح ہونے یا نہ ہونے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

س: بہت سی دستاویزات اور اسناد وازرت کے پاس ہیں کہ جو ہمیں حقیقت سے نزدیک تر کر سکتی ہیں لیکن یہ اسناد و دستاویزات آپ جیسے محققین کے ہاتھوں میں نہیں دی جاتی،کیا یہ کام تاریخ شفاہی کے لئے نقصاندہ نہیں؟

ج: یہ مشکل ہے لیکن مہتاب نامی ایک گروہ کہ جو ملکی دستاویز کے مرکز میں بنا ہے وہ اس کام کے لئے سرگرم ہے امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ دستاویزات منظر عام پر ہوں گی۔

س: ایسی کون سی خصوصیات ہیں جو تاریخ شفاہی کو ممتاز کر تی ہیں؟

تاریخی حوادث کے ذریعے سے افرد کے اندرونی راوبط کی جانب توجہ ،تاریخ نگاری میں اس بات  کو خصوصیت شمار کیا جا سکتاہےبسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کو بیان کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ اس فرد کی اندرونی حالت کی تصویر کشی کر رہے ہو تے ہیں ،مثال کے طور پر انقلاب کے موضوع  پر نگاہ کریں پہلوی سرکار کی نگاہ میں حکومت کے خلاف لوگوں کے احتجاج کے عوامل کیا تھے ؟ اور وہ لوگ جو احتجاج کرنے جمع ہو ئے تھے کا نظریہ کیا تھا ؟  ان واقعات سے انسانی روابط کا پتہ چلتاہے اور شاید یہ ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہو جو اس طر ز تاریخ کی ہے ۔

یہ احساسات جو اس تاریخ میں بیان ہو تے ہیں فنکاروں کے لئے  ایک سرمایہ ہیں اور عصر جدید میں انسانی نگاہ کو روابط کی جانب متوجہ کرتے ہیں ،جو لوگ اقتصادیات میں مشغول ہیں ان کے لئے انسانی روابط ان کے اپنے کام سے مربوط ہیں اور ہمارے لئے انسانی اقدار کی بلندی اور روابط بہت اہمیت کے حامل ہیں اور یہ تاریخ شفاہی کی خصوصیت ہے۔

س: تاریخ شفاہی میں جو کچھ بھی جمع ہوا ہے کیا اسے کو ئی کتابی شکل دی گئی ہے ؟۔

جی ہا ں تقریباً چالیس کتابیں اس شعبے سے شائع ہو چکی ہیں پہلی کتا ب کہ جو اس سلسلے میں شائع ہو ئی وہ ہادی غفاری صاحب کی کتاب تھی جو ان کی اپنی آپ بیتی تھی ۔پھر اس کے بعد ،، زوایای تاریکی ،، یعنی تاریکی کے زاویے شائع ہو ئی کہ جو جلال الدین فارسی کی یا داشتوں پر مشتمل ہے جلال الدین صاحب یاسر عرفات کو ایران لائے اور خود صدارت کے عہدے کے لئے امیدوار ٹھہرے اسی طرح ایک کتاب ١۵ خرداد کے سلسلے میں ایک کتاب شائع کی ہے اسی طرح مختلف افراد کی یاداشتوں پر مشتمل کتابیں شائع کی ہیں جیسا کہ جواد منصوری کی یاداشتیں ، مرضیہ دباغ ، مرتضیٰ الویری ،اکبر براتی ، مرتضیٰ نبوی ،مہندس طاہری ،قید خانے کی یاداشتیں ،محتشمی پور، خاثظ نیا ،کی یاداشتیں ان کتابوں میں سے ہیں کہ جواس شعبے کے زیر نگرانی شائع ہو چکی ہیں۔

س: جناب فخر زادہ آپ نے وزیر ثقافت و نشر و اشاعت کے واقعات کو جمع کیا ہے ان کی کتاب کے بارے میں کچھ کہیں؟

جواب: جنتی صاحب جب کتاب کی تدوین ہو رہی تھی تو ملک کے سفیر کی حیثت سے ملک سے باہر تھے میں نے فون پر ان سے کہا کہ ہم آپ کی کتاب کی ایڈیٹنگ کر رہے ہیں تو انھوں نے جواب میں کہا کہ میرے پاس اس کی تکمیل کا وقت نہیں ہے اور انھیں معلومات پر آپ کتاب شائع کر سکتے ہیں تو اسی کتاب کو منظم کر کے شائع کر دیں ،میں نےحجة السلام حسینیان صاحب سے کہا کہ اس کتاب کے ناقص ہو نے کہ وجہ سے میں اس کو نہیں چھاپوں گا تو انھوں نے کہا اسی طرح اسے شائع کر دیں گے ،اس طرح یہ کتاب چھپ گئی لیکن میری نگاہ میں یہ کتاب نامکمل ہے امید ہے کہ آئندہ یہ مکمل ہو کر چھپے گی ۔

س: اس وقت آپ کیا کر رہے ہیں ؟

جواب: انتظامی امور ہمیں فرصت نہیں دیتے جبکہ تحقیقی کام میں علم اور افراد میں اضافہ ہو رہا ہے اور بہت  سے موضوعات سے آشنائی ہو رہی ہے وہ افراد جو ہمارے ساتھ کام کیا کرتے تھے انھوں نے انتظامی امور کو قبول نہیں کیا وہ آج علم و تحقیق میں مجھ سے بہت آگے ہیں ،ریٹائر ہونے کے بعد جو کچھ علم رہ جائے گا وہی اصل سرمایہ ہے محقق اور لکھاری کبھی بھی فراموش نہیں ہو تے کیوں کہ ان کے پاس ان کا سرمایہ ہو تا ہے۔میرا اپنا رجحان تحقیقی کام میں ہے،اگر کو ئی میرا جیسا  پرُ خدشات شخص  ان کاموں کو انجام دے تو میں یقینی طور پر تحقیقی کام کی جانب جا وں گا ابھی تو میں انتظامی امور سے منسلک ہوں ،تحقیقی کام جیسا کہ نوفل لوشاتو جو انقلاب سے چار ماہ پہلے کی آپ بیتی سناتا ہے جرنل حسام ہاشمی اور میرے ہم رزم صیاد شیرازای اور پائلیٹ  کریم عابدی ،شہید چمران کی آپ بیتی پر تحقیق کر ونگا یہ تحقیق کتاب کی صورت میں سامنے آئے گی اسکی تدوین وتنظیم کا کام میرے ذمہ ہے اس طرح کے کام کی وجہ سے انٹرویو کا وقت ہی نہیں ہوتا کیوں کہ یہ کام تحقیق چاہتا ہے وہ افراد جو تاریخ شفاہی کے شعبے کی انتظامیہ کے افراد ہیں دراصل محققین کے خدمت گذار ہیں ا س کام میں ہمیں وسائل اور کافی بجٹ درکار ہے اور مصنفوں کی ضروریات پوری کرنی ہو تی ہے کبھی کبھی ان کی گھریلوپریشانیاں بھی ہو تی ہیں کیوں کہ ان کے مسائل سے لا تعلق نہیں رہا جا سکتا۔

س: کبھی آپ کو اپنی آپ بیتی جمع کرنے کا خیال آیا؟

جواب: میں بہت سے واقعات کا شاہد ہوں لیکن دوسروں کی آپ بیتیاں جمع کرنا خود ایک بہت بڑا کام تھا اس وجہ سےمیں نے اپنی آپ بیتی کی جانب توجہ نہیں دی اور بہت ہی کم خلاصہ کر کے میں نے اپنی آپ بیتی کو لکھا ہے ،میں جنگ میں زخمی نہیں ہوا جبکہ میں کیمیکل بم  کی زد میں آیا تھا میں سپاہیوں کے درمیان تھا اور ان سے کسی بھی مشکل کے بغیر رابطے  میں تھا  ،میں ایک کمانڈر سے انٹرویو کے لئے عراق کے کردستان گیا راستے میں ایسے شہر اور گاوں پڑے کہ جن میں منافقین جو حکومت کے خلاف تھے رہتے تھے لیکن مجھے کبھی کچھ نہ ہوا کیوں کہ عراقی کرد ہماری حمایت کر رہے تھے یہاں تک میں عراق کے شہروں میں گیا اور عراقیوں کا مہمان رہا ۔

س: انقلاب کی یادوں میں سے آپ کو کیا یاد ہے ؟

جب انقلاب آیا تو میں ١٦ سال کا تھا اس عمر میں ،میں نے ڈاکڑعلی شریعتی کی کتابوں کو پڑھ رکھا تھا اور بھی زیادہ مطالعہ تھا ،جب انقلاب کامیاب ہوا تو میں ملائر میں تھا ایک دن احتجاجی ریلی میں میں شرکت کی غرض سے میں نے اپنی سائیکل کو ایک جگہ پر کھڑا کیا اور ریلی میں شریک ہو کر پولیس تھانے تک گیا ،اس خوف سے کہ کہیں میری سائیکل چوری نہ ہو جائے میں واپس پلٹا اور اس پر سوار ہو کر تھانے تک واپس آیا لوگ فائرنگ کی وجہ سے بکھر چکے تھے لیکن میں اس سوچ میں تھا کہ ابھی لوگ وہاں ہوں گے میں واپس پلٹا تھا لیکن جب میں تھانے کے سامنے پہنچا تو وہاں کو ئی بھی نہ تھا سب جا چکے تھے جب فائرنگ ہو رہی تھی میں بھی بھاگا اور ایک گلی میں جا کر چھپ گیا ۔

مجھے یاد ہے کہ  ریلی کا راستہ کہ جہاں سے اسکا آغاز ہوا تھا وہ ہمارا آرٹ اسکول تھا ، دوسرے اسکول بھی ہمارے ساتھ مل گئے دوسرے اسکولوں سے  رد شدہ بے ادب بچے آرٹ اسکول میں آگئے تھے  یہ بچے اسکول کے بند ہو نے وجہ سے اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے اور ریلی وغیرہ میں ہماری مدد کیا کرتے تھے یہ لوگ لڑنے جھگڑنے والے تھے ان کا ریلی میں شریک ہونا اسکول بند ہونے کا سبب بنا تھا ،میرے والد اس زمانے میں پولیس میں ہوا کرتے تھے اگر میں پکڑا جاتا تو ان کے لئے مشکلات کھڑی ہو جا تیں ،ایک مرتبہ ریلی کے بعد پولیس نے ہم پر ہلہ بول دیا اور میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ ایک بند گلی میں پھنس گیا اس گلی میں ایک قلفی بیچنے والا تھا ،

ہم ہمیشہ وہاں سے گذرا کرتے تھے ہم تیزی سے اس کی دکان میں داخل ہو گئے اور بہت سی آئسکریم اٹھا لی اور کچھ کو پھینک دیا اور کچھ کو کھانے لگے تاکہ انھیں ایسا لگے کہ ہم تو کافی دیر سے یہاں کھڑے ہیں اور آئسکریم کھا رہے ہیں ،پولیس دکان میں گھس گئی ،دوکان دار سے ہمارے بارے میں پوچھنے لگے اور پھرہم پر شک کئے بغیر  چلے گئے ،ہم بھی وہاں سے نکل آئے ۔

س: ملک میں آپ بیتیوں کو لکھنے کا رواج کیوں نہیں ہے ؟

جواب: ہمارے ملک میں تحریر کی ثقافت رائج نہیں ہے ،ہمیں اقتصاد پر توجہ دینے سے پہلے ثقافت پر توجہ دینا چاہیے جبکہ غرب اس کی اہمیت سے واقف ہے اورانھوں نے  ثقافت کو اقتصاد کے ساتھ ملا دیا ہے ،جبکہ ہمارے ملک میں ثقافت کو بڑا سر سری لیا جاتا ہے ،لوگوں کی لکھنے کی جانب کوئی توجہ نہیں ، لوگ اپنے تجربات کو تحریر کرنے کی عادت ڈالیں اور آپ بیتیاں تحریر کریں ۔

جبکہ ملک سے باہر یہ مسئلہ تعلیمی نظام اور خاندانوں کا حصہ ہے ،ہم ادب کی بڑی بڑی کتاب،عربی و انگلش کی کتابیں تو پڑھا دیتے ہیں لیکن طالب علم کو خط لکھنا نہیں سکھاتے ،ہماراتعلیمی  سسٹم  حفظ پر زیادہ توجہ دیتا ہے لیکن طالب کو اس کا استعمال نہیں بتاتا۔

یہ بات ثابت ہے کہ جو بھی لکھنے والاہو گا وہ پڑھنے والابھی ہو گا لیکن اس کا برعکس ،ہر گز نہیں ،ہم اگر اپنی عوام کو پڑھنے کی جانب تشویق دلاتے ہیں تو پہلے انھیں لکھنے کی جانب متوجہ کریں البتہ ابھی اس سلسلے میں ہم کچھ ہلچل کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔

س: فخر الدین صاحب آخرکیا وجہ ہے کہ انقلابی افراد نے اپنی آپ بیتی لکھنے کی کوشش نہیں کی؟

جواب: دوران انقلاب تو کسی میں بھی یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ ان آپ بیتیوں کو لکھے کیوں کہ اگر ایجنسی اور ساواک کے افرد کو اس کاعلم ہو جاتاتو  گرفتار ہو جا تے اسی وجہ سے  آمرانہ حکومتوں کے حالات ضابطہ تحریر میں نہ آسکے،یہاں تک کہ لوگ اصلی نام سے بھی ایک دوسرے کو نہیں پکارتے تھے بلکہ اسم مستعار استعمال کیا کرتے تھے تا کہ عقوبت خانوں میں اصلی نام ظاہر نہ ہو جا ئے ۔

س: نئے آنے والوں کے لئے آپ کیا نصیحت کرنا چاہیں گے ؟

جواب: ماضی میں لوگ جس میدان میں بھی قدم رکھتے اور ایک استاد منتخب کرتے اور اسکی شاگردی اختیار کرتے لیکن دور حاضر میں ایسا نہیں شاید اس کی وجہ مالی بحران ہے طالب علم آتے ہی مالی مسائل کا رونا روتا ہے اور اپنی اجرت اور تنخواہ کا پوچھنے لگتا ہے ، میں نے جنگ کے زمانے میں تقریباً چار یا پانچ سال بغیر کسی توقع کہ کام کیا اور اب میں اس میدان میں محقق ہوگیا ہوں اور مختلف ایجنسیوں میں اپنے کام کی قیمت مانگ سکتا ہوں ،اس مرحلے تک پہنچے کے لئے تلاش و جستجو اور انتھک محنت درکار ہے جوانوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم ایک سال محسن کاظمی جیسے افراد کے زیر سایہ کام کریں ،

کام کرنے کی یہ صورت بھی مفت نہیں ہے بلکہ اس سے ایک تجربہ حاصل ہو گا ایسے افرد اس میدان میں کام کر کے اپنی استعداد کو نکھار سکتے ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 4443


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔