ظلمتوں میں پرواز

"شاپور بختیار کی سیاسی زندگی" پر حمید شوکت کی جرمنی سے چھپنے والی تازہ ترین کتا ب


2015-8-6


حمید شوکت  جو عرصہ دراز سے ایران کی اپوزیشن تحریک کی تاریخ پر کتابیں لکھ رہے تھے انھوں نے اس دفعہ "شاپور بختیار کی سیاسی زندگی" پر قلم اٹھایا ہے۔

مؤرخ کے کہنے کے مطابق "ایران میں شہنشاہی نظام کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار کی سیاسی زندگی ہماری تاریخ سے گہرا ربطرکھتی ہے"۔ اس کا بچپنا "ایل" میں، نوجوانی اور جوانی پیرس اور بیروت میں۔  اُس کا "حزب ایران اور جبھہ ملی" میں محمد رضا شاہ  اور آیت اللہ خمینی کے روبرو سیاسی  مقابلہ آرائی میں حصہ لینا، اس کے اثرات آج بھی ہمارے زمانے میں موجود ہیں۔  بختیار کی سیاسی زندگی میں انقلاب اسلامی کی آمد پر اُس کا وزارت عظمیٰ کو قبول کرنا خاص اہمیت کا حامل ہے اُس کے اس عہدے کو قبول کرنے کی وجہ، اگرچہ اس کا تعلق انسان کی ذاتی خصوصیات سے وابستہ ہے، اکثریت نے اسکی جاہ طلبی کو قرار دیا ہے اس نے اسی جاہ طلبی کو سیاست کے میدان میں آگے بڑھنے کا زینہ بنایا اور اس بات کی نفی بھی نہیں کی اور نہ ہی اُس کو غلط قرار دیا۔

اس کے علاوہ ان بحرانی شرائط میں اس عہدے کو قبول کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ایران کے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ پریشان تھا اور یہ ہی پریشانیاں ایران کیلئے خطرے کی گھنٹیاں تھیں۔

اس سے پہلے کہ وہ امام خمینی کے مقابلے میں کھڑا ہو جرأت و شجاعت کو سیاست کے میدان میں کامیابی کا سبب سمجھتا تھا۔

اس کا کہنا تھا کہ "عیب کی بات یہ ہے کہ بعض افراد اپنی زندگی کے تمام مراحل میں راحت اور سکون کو تلاش کرتے ہیں اور جنت کے خواب و خیال ہی کو وہ ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔ بہرصورت ہر ملک کو وطن پرست  اور متقی افراد کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن خالی وطن کی محبت اور تقویٰ کسی ملک کی کشتی کو ساحل تک نہیں پہنچاتا، اس کے لیے طاقتور اور قوی ارادے والے افراد کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔"

حمید شوکت اپنی کتاب کا تعارف کراتے ہوئے دوسرے حصے میں یہ کہتے ہیں کہ "بختیار نے ایسے زمانے میں سیاست میں قدم رکھا جب اس کی ذاتی اور خاندانی صلاحیتیں عروج پر تھیں، جاہ و منصب کے حصول کی خاطر وہ اپنے اعتقادات کو بھی چھوڑ بیٹھا بالآخر اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اس کی رشتہ داری شاہ ایران کی دوسری بیوی ثریا اور انٹیلی جنس کی تنظیم ساواک کے صدر تیمور بختیار سے تھی اور یہ چیز اس کی گرتی ہوئی سیاست کو قدرت اور شہرت کے بلند ترین مقام تک پہنچا سکتی تھی لیکن وہ کچھ ایسے فیصلے کر بیٹھا کہ جس کی وجہ سے یہ سارے امتیازات اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ سب سے پہلی غلطی اُس نے یہ کی کہ ابتدائی دور وزارت میں سن ۱۳۳۲ ش ھ مردار کے مہینے میں وزیر اعظم مصدق کی کابینہ کے ٹوٹنے کے بعد زاہدی کی کابینہ میں عضو بننے سے انکار کردیا اس خیال میں  کہ جبھہ ملی کی طرف سے انقلاب کی آمد پر اُسے قدرت اور منصب حاصل ہوجائے گا۔ دوسرے اللّھیار صالح کو تمام تر اختلافات کے باوجود، وزیر اعظم کے عہدے کی نامزدگی کیلئے قبول کرلیا اس نے کریم سنجابی کی وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے ذرا سی بھی کوشش نہیں کی اور جب غلام حسین صدیقی کا نام عرف عام پر اکثرلوگوں کی زبانوں پر آنا شروع ہوگیا تو اُس نے شاہ سے اس کی تعریف کر دی، نتیجہ یہ نکلا کہ جب اُس نے اپنی جان کو خطرہ میں پایا تو بے خوف لیڈر کی طرح میدان کا رخ کیا، چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے نفس پر اعتماد کرتے ہوئے شجاعت کا مظاہرہ کرتا لیکن وہ تو "مرغ توفان" کی طرح بے نتیجہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا۔صد افسوس  بختیار نے بدترین حالات میں جب اکثر لوگ مشکلات میں گھرے ہوئے تھے اور امن و امان حاصل کرنے کیلئے آسان اور سیدھے سادھے جوابات کے متلاشی تھے جو انہیں مشکلات سے باہر نکال سکے، اپنی تقریروں میں کوئی ایسی عقلمندانہ گفتگو نہیں  کی جو انہیں مشکلات سے نجات دے سکے۔

مؤرخ نے ایران کے انقلاب میں بختیار کا مقایسہ، فروری ۱۹۱۷ ء میں رو س کے انقلاب میں، عبوری صدر کرنسکی سے کیا ہے۔ وہ یہ لکھتا ہے کہ "اگرچہ ان دونوں کے درمیان واضح فرق موجود ہے لیکن پھر بھی یہ تشبیہ بے بنیاد نہیں ہے"۔

کرنسکی (crnceki) اکتوبر ۱۹۷۱ میں بلشکی (Blushki) انقلاب  کی خاطر فرانس فرار ہوگیا وہ اپنے گذشتہ حالات زندگی میں لکھتا ہے کہ، اُس نے ایک مرتبہ پھر اپنی قسمت کو آزمایا اور "روس کی آزادی کی سیاسی تحریک چلانے کیلئے تدریس کو ضروری سمجھا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس نے صدارت کی کرسی کو چھوڑ کر یونیورسٹی میں استاد کی کرسی سنبھال لی۔  بختیار نے بھی کچھ ایسا ہی کیا، فلسفہ اور وکالت پڑھ کر سیاست میں چلا گیا اور نظام مشروطہ کی برقراری کیلئے جب اُس نے حالات کو سازگار پایا تو خوف کے عالم میں فرانس کی راہ لی اور سالہا سال گزر جانے کے بعد شکستہ دل کے ساتھ وطن واپس آیا اور سیاست کو چھوڑ کر تدریس کا شعبہ اختیار کیا۔"

اس کتاب کے لکھنے میں غیر ملکی اور فارسی کی کتابوں سے اور برطانیہ اور امریکہ کی وزارت خارجہ میں موجود اطلاعات سے مدد لی گئی ہے اس کے علاوہ بختیار کی دوسری بیوی شاہین تاج اور اس کی بیٹی فرانس اور اس کے دور وزارت کے چند وزارء، سیکریٹری اور چند دوستوں کے انٹرویو بھی شامل ہیں۔ بختیار شاپور کی سیاسی زندگی پر لکھی گئی کتاب "پرواز در ظلمت" (۴۶) صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی آٹھ فصلیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ شاپور بختیار  پہلوی سلسلہ کا آخری وزیر اعظم، ۱۲۹۳ ش ھ میں پیدا ہوا۔ وہ حزب ایران کا سربراہ، جبھہ ملی کی مرکزی شوری کا رکن ، ڈاکٹر محمد مصدق کی حکومت میں وزیر اور فرانس کا تعلیم یافتہ تھا ابتدائی تعلیم اس نے  ایران میں حاصل کی پھر بیروت کے فرانسی اسکولوں میں تیمور بختیار کے ساتھ تعلیم کو جاری رکھا اور ۱۳۱۶ ش ھ میں خود فرانس چلا گیا اُس نے پریس کی یونیورسٹی سے وکالت میں ۱۳۲۸ ش ھ میں ڈاکٹریٹ کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں فرانس کی فوج میں چلا گیا، ۱۳۲۸ ش ھ میں وہ خوزستان کا وزیر بنا، ۱۳۳۹ ش ھ میں وہ جبھہ ملی کی مرکزی شوری میں داخل ہوا۔ ۱۳۲۰ ش ھ سے وہ جب کہ وہ حزب ایران کا عضو تھا اللھیار صالح کے ساتھ جو اس جماعت کا سرپرست تھا "جبھہ ملی رہبری ایران" کا بھی عہدہ سنبھال لیا یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم کے لیے نامزد ہوا اس عہدے پر باقی رہا۔

بختیار ۲۸ مرداد کے مارشل لا کے بعد چند مرتبہ جبل بھی گیا لیکن تحقیقات کے بعد آزاد ہوگیا۔ اس کا بھتیجا تیمور بختیار مارشل لا حکومت کا صدر اور ۱۳۳۲ ش ھ سے ۱۳۳۹ تک ساواک کا چیف جنرل بھی تھا۔ ۱۳۵۶ مرداد کے مہینے میں ڈاکٹر جمشید آموزگار اور جبھہ ملی کے دوسرے افراد کی قیادت سامنے آنے پر اس نے اپنی فعالیت شروع کردی لیکن بعد میں جبھہ ملی میں پیدا ہونے والے اختلافات نے اُسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔

۲۔ حمید شوکت ۱۳۴۶ میں امریکہ چلا گیا اور مخالف سیاسی تحریک کے ساتھ جاکر مل گیا۔ امریکہ میں موجود ایرانی طلبہ تنظیم کی رکنیت اختیار کرلی۔بعد میں یہ تنظیم بین الاقوامی فیڈریشن میں تبدیل ہوگئی۔ شوکت نے انقلاب کی آمد پر ایران میں قائم ہونے والی ڈیموکریٹک تحریک میں شرکت کی اور ایک مدت تک "آزادی نشریات" میں انجمن تحریرکا مرکزی رکن بنا رہا پھر یورپ سے پلٹنے کے بعد "نشریہ نامہ جمہوری خواہان" کے ساتھ تعاون کیا اور اپنی پہلی کتاب روس میں قائم ہونے والی "نظام واحد کے اسباب" کے عنوان سے شائع کی۔ اُسی نے ایران کی مخالف تحریک کی تاریخ لکھنے میں ا س تنظیم  کے چار افراد سے گفتگو اور انٹرویو لیے ہیں۔ اجتماعی مسائل کو بیان کرنے کے سلسلے میں تاریخ کا تحلیلی تجزیہ کرنا انٹرویوز کے ذریعے سے، یہ ایک نئی اور بہترین روش ہے ۔ ایران میں پہلی بار اس طریقے کو رائج کرنا اسی کی ایجادات میں سے ہے۔ یہ انٹرویوز چند کتابوں کی صورت میں "ایران کی مخالف تحریک کے دلوں کی آواز" کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 4419


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔