حجت الاسلام خراسانی کی یادوں سے ایک اقتباس

بنی صدر کی مخالفت

فاٸزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: ابو زہرا

2021-9-14


میں اس دن سے بنی صدر کے خلاف ہوں جب سے وہ صدر منتخب ہوئے کیونکہ میں نے انہیں امام خمینی اور نظام کی راہ میں نہیں دیکھا۔  بنی صدر نے اپنے آپ کو ایک انقلابی کے طور پر ظاہرکیا تھا تاکہ کسی کو یہ موقع ناملے حتیٰ کہ کوٸی چار نوجوان بھی اسکے بارے میں اختلاف کرسکیں اور اس کی مخالفت کرنے دیں ، اور کسی نے بنی صدر کی کھل کر مخالفت کرنے کی جرات بھی نہیں کی۔  لیکن اس سے پہلے کہ بنی صدر کی منافقت ظاہر ہو ،  ان کی مقبولیت کے عروج تھی، جب رمضان کے دوران بنی صدر مشہد گئے تو ان کی بہت پذیرائی ہوئی۔  افطار سے پہلے ٹی وی نے مشہد میں ان کی تقریر نشر کی۔  اس تقریر میں بنی صدر ایک شرارت کی انھوں نے اپنے آپ کو امیر المومنین (ع)کی جگہ پر رکھا اور شہید ڈاکٹر بہشتی اور نظام کے دوسرے بڑے افراد کو بطور قاسطین ، ناکسین اور مارقین کے طور پر پہچنوایا۔  انھوں اپنے ان الفاظوں لفافے میں بیان کیاتھا۔ صرف بافھم  اس کے معنی کو سمجھتے تھے۔

 اس وقت ، میں دس راتوں میں مسجد بقیة اللہ نارمک میں منبر پر جا رہا تھا۔  یہ پہلی رات تھی جب میں نے منبر پر لوگوں سے کہا: "کیا تم نے اسلام کے درخت کی جڑ پر کلہاڑی کی آواز سنی ہے؟! ‌ میں اس فرانسیسی نائٹ کلب کے بارے میں بات کر رہا ہوں"۔  مجمع سمجھ گیا کہ میرا مطلب بنی صدر ہے۔  پہلا رد عمل ایک سننے والے نے دکھایا ، جو ہمیشہ اپنے ساتھ مفاتح  یا قرآن ساتھ رکھتاتھا  اس نے میری طرف دیکھا اور ہاتھ میں کتاب ہلا کر کہا کہ وہ نبی کے اس بچے کو کام نہیں کرنے دیں گے۔

 میں نے اس رات بات کی اور میں پٹنے کے لیے تیار تھا، میں جانتا تھا کہ بنی صدر پر تنقید کرنا ابھی بہت جلدی ہے۔  جب مجلس ختم ہو ٸی ، ابھی میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھاکچھ نوجوان اٹھ کر بنی صدر کے حق میں نعرے لگانے لگے۔  انہوں نے کہا ، "بنی صدر پر سلام ہو ، ‌ بنی صدر پر سلام ہو۔"  میں بہت سکون سے مسجد سے باہر آیا۔  ہجوم میرے پیچھے مسجد سے دماوند اسٹریٹ تک بنی صدر کے حق میں نعرے لگاتاہواآیا۔

 اس پلید نے علماء کے ساتھ کچھ ایسا کیا تھا کہ ہمیں ڈر تھا کہ بنی صدر کے حامی سمجھ جائیں گے کہ ہمارے پاس گاڑی ہے۔  میں گاڑی کو مسجد سے دور چھوڑ کرآیاتھا۔  جب ہم سڑک پر پہنچے تو میں نے کہا: "حضرات ، کیا آپ کے نعرے ختم ہوچکے ہیں یا ابھی کچھ باقی ہے ؟!  اگر آپ کے پاس کوئی نعرہ ہے ، ٹھیک ہے ، ہم اسے سننے کے لیے تیار ہیں ، اگر نہیں تو میں آپ لوگوں سے ایک جملہ کہنا چاہتا ہوں۔  "یاد رکھیں ، ہمارے پاس یہ پروگرام مزید نو راتوں کے لیے ہے ، یہ پہلی رات ہے اور ابھی مزید نو راتیں باقی ہیں۔"  میں نے یہ جملہ کہا اور چلا گیا۔

 وہاں سے ، میں ھفدہ شہریار اسٹریٹ ، شہید آیت اللہ سعیدی اسٹریٹ اور  مسجد مھدوی آیا۔  اس مسجد میں ، اسپیکر مسجد کی چھت پت تھے، اور چونکہ وہاں حزب اللہ کے جوان  زیادہ تھے ، اس لیے میں نے بنی صدر پر نام  تنقید اور بڑھا دی۔  بات چیت کے درمیان ایک موقع پر ، میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو بظاہر چھت پر  سو رہا تھا ٹی شرٹ پہنے مسجد میں داخل ہوا۔  وہیں سے ، مسجد میں ، اس نے شور مچانا شروع کیا ، "جناب ، آپ یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں ، آپ قوم کو کیوں بکھیر کر رہے ہیں ، آپ اختلاف کیوں پیدا کر رہے ہیں؟"

 مسجد کے حزب اللہ  کے نوجوانوں نے چاہا کہ اسے پکڑیں پر میں نے کہا کہ کوٸی اس بندہ خداکو کچھ نابولے  ہم تین کام کرتے ہیں: یا تو میں اب نیچے آتاہوں ، اور آپ کو کچھ کہنا ہے تو آئیے بات کرتے ہیں ، یا جب مجلس ختم ہو جائے تو میں آپ کو یہ فورم دے تا ہوں ، آئیے کیجٸے۔ یا آپس میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں، چند جملے "میں آپ کو اورچند جملےآپ مجھے سناٸیں اور موضوع پر  ہم ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کریں۔"

 وہ شخص ممبر کے پاس آکر بیٹھ گیااور میں نے اپنی بات تمام کی۔  جب مجلس ختم ہوٸی تو ایک یا دو گھنٹے بحث ہوئی۔  ہجوم کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا: ایک کو کے حق میں ، اور دورسے  کو  خلاف ، اور زبانی کشمکش فجر کے قریب تک جاری رہی۔

مجھے یاد ہے جب بنی صدر یونیورسٹی میں تقریرکررہے رہے تھے وہ 5 مارچ کے فساد لانچ کر رہے تھے ، اسی حزب اللہ کے کچھ جوانوں نے کہ جن کے نام میں ذاتی طور پر جانتا ہوں - نے انکی تقریر کے دوران  ایک نعرہ لگایا: "ابوالحسن پنوشیہ ، ایران شیلی نمی شہ۔"

 بنی صدر کے مداحوں نے جوان کو مارناپیٹنا شروع کردیا وہیں انھوں نے  حزب اللہ کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔

وہ کہہ رہے تھے: حضرات دیکھیے، ہم نے یہ چاقو اور یہ لاٹھیاں ان سے پکڑی ہیں، اور ٹی وی پر دکھانے لگے۔  وہ ان کے خلاف اور بنی صدر کے حق میں ماحول بنانا چاہتے تھے تاکہ لوگوں کو اکسایا جا سکے۔  لیکن ان جوانوں نے بہت استقامت کی ، وہ تقریر کی جگہ تک جانے کی کوشش کررہے تھے ،  بدقسمتی سے پولیس بنی صدر تحریک کے ہاتھوں میں تھی ، لیکن ان کی بغاوت کے باوجود ان جوانوں نے بہت قربانیاں دیں ہیں۔

 جنگ کے دوران بھی بنی صدر کی خیانت جاری رہی۔  شہید محمد ما اور اس کے ساتھی جو کہ آبادان کےجوان  تھے ، جب وہ تہران آئے تو کہا کہ وہاں بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود موجود ہے۔  لیکن وہ ہمیں اور ہمارے جوانوں کو اجازت نہیں دیتے۔  بنی صدر نے کہا کہ ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہے ، انھوں نے جان بوجھ کر اسلحہ نہیں دیا۔

 ہم نے اپنے ان دوستوں کی مخالفت کی جو پہلے بنی صدر کی حمایت کرتے تھے۔  یہاں تک کہ بنی صدر کے مسئلے پر ہونے والی میٹنگوں میں بھی بعض اوقات بعض دوستوں کے ساتھ بہت سخت کلامیاں ہوئیں جن کے ساتھ میں کام  کرنے کو تیار تھا۔

 مجھے یاد ہے کہ ایک میٹنگ تھی جہاں ان حضرات میں سے کچھ موجود تھے۔  میں نے اس میٹنگ میں تقریبا آدھے گھنٹے تک بات کی - یہ وہ وقت تھا جب اسلامی جمہوریہ پارٹی نے عسکریت پسندوں کے ساتھ الیکشن کے دوران اتحاد قائم کیا تھا - اور میں نے اپنے سخت اور تنقیدی ریمارکس سے اپنے دوستوں کو ناراض کیا۔  ان میں سے ایک نے چیخ کر کہا ، "اسے باہر لے جاؤ"، لیکن میں بولتا رہا اوروہ ہی کہاجو مجھے کہناتھا۔ بعد میں ، جناب ناطق نوری ،نے مجھ سے کہا: ”تم نے اپنی تقریر سے کیا ہنگامہ برپا کردیا“خوب بولے تم۔جب مقام معظم رھبری میٹنگ میں تشریف لاٸے تو انھوں نے کہا کہ آپ ہوتے تو دیکھتےکہ مھدوی نے کیا کیا؟بہترین کلام کیا 

 شہید بہشتی کی بنی صدر کے خلاف جدوجہد

 مجھے شہید بہشتی کا واقعہ یادہے۔ مہینے کی ہرپندرہویں دن کی جمعرات کی  رات میں، دوستوں کے ساتھ ایک میٹنگ ہوتی تھی۔  کچھ راتوں میں آیت اللہ خامنہ ای ، جناب ہاشمی رفسنجانی اور ڈاکٹر شہید بہشتی  تینوں معززین موجود تھے ، اور کچھ راتیں اگر ان کے پاس کام ہوتا تو کم از کم ان میں سے ایک آجاتا۔

 شہید بہشتی کی شہادت سے ایک یا دو مہینے پہلے ، ان کی شہادت کے اسی مقام پر ، اجلاس میں کرج ، دماوند ، ورامین اور تہران کے تقریبا 150 150 علماء موجود تھے۔  آیت اللہ بہشتی بات کر رہے تھے جب میں دروازے سے داخل ہوا اور ان کے اعزاز میں اس وقت ایک خالی کرسی رکھی تھی ، میں اسی پر بیٹھ گیاتاکہ ان کی گفتگو میں خلل نا پڑئے۔  وہ اس حقیقت کے بارے میں بات کر رہے تھے کہ ہمارا کام ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں ہمیں یا تو امریکہ کے بلاک میں بیٹھنا پڑےگا یا شہادت کی سرخ لکیر کا انتخاب کرنا پڑے گا۔  انھوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ بنی صدر ہمارے ساتھ دھوکہ کر رہا ہے اور کہا ”وہ کہتے ہیں کہ ہمیں  امن قائم کرنا چاہیے ، چاہے ہم صدام کو آبادان دیں ، اور بنی صدر نے اصرار کیا کہ ہمیں صدام کے ساتھ صلح کرنی چاہیے ، اور کہا کہ عراق میں تقریبا2000 توپیں آبادان کے اطراف میں لگادی  گئی ہیں۔  شہید بہشتی نے مزید کہا: "میری رائے یہ ہے کہ یہ توپیں نہیں ہیں ، یہ ہمیں ڈرانے کے لیے لاٹھی ہیں ، یہ اندر سے خالی ہیں ۔"  پھر انھوں نے کہا کہ ہمیں دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا: یا تو ہم جائیں اور امریکہ کی گود میں بیٹھیں کہ "ھیھات منا الذلہ": ہم ان پیشوں سے نہیں ہیں ، میں نے شہادت کی سرخ لکیر کا انتخاب کیا۔  پھر وہ حضرات کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر آپ تیار ہیں تو تکبیر کہیں کیونکہ سب نے تکبیر کہی۔  اس کے بعد ، انھوں نے وہیں سے  مجھے مخاطب کیا اور کہا: "جناب مہدوی ، راستہ وہی ہے جوآپ نے اختیار کیا ، یہی راہ چلیں گے۔"

 ان کی تقریر کے بعد ، میں نے زور سے کہا: "جناب ، ہم یہ ملک چھوڑنا چاہتے ہیں ، ہمیں اپنا پاسپورٹ دیں ، آپ اس غدار کے سامنے خاموش کیوں رہے ؟!"  شہید بہشتی نے  میری  طرف مڑ کر مجھ سے کہا: "جناب مہدوی ، ہم امام خمینی کے پیروکار ہیں ، امام خمینی نے ہمیں اس وقت  خاموش رہنے کا حکم دیا ہے اور انھوں نے اپنے منہ کے سامنے ہاتھ رکھ کر کہا اوہ! !  ہم اس وقت تک خاموش ہیں جب تک امام ہمیں حکم نہ دیں۔  "لیکن جب وقت آئے گا ، ہم اپنا کام کریں گے۔"

 جب ملاقات ختم ہوئی تو حضرات نے مجھے گھیر لیا کہ آیت اللہ بہشتی کس راہ کی بات کر رہے ہیں ، تو میں نے کہا کہ جایٸے اور انھیں سے پوچھٸے۔  شہید بہشتی نے بقیة اللہ  مسجد اور دیگر مساجد میں میرے لیکچرز کا حوالہ دیا۔

 ایک بار جب میں آیت اللہ مہدوی کنی سے ملا تو وہ بہت مہربان تھے اور کہا: "جناب مہدوی ، آپ کے منصوبوں کی خبریں ہم تک پہنچتی ہیں ، ہماری اسمبلیوں اور حلقوں میں ایک کے بعد ایک ، ہم صرف آپ کے لیے دعا کرتے ہیں۔"

کچھ عرصہ قبل ہماری ایک ملاقات ہوئی تھی ، حجت الاسلام والمسلمین حاج  ابراہیمی ، جورھبرکے افغانستان اور مساجد کے امور میں نماٸندے تھے ، نے کہا:  راستہ وہی ہے جوآپ نے بیان کیاہے

 بنی صدر انقلاب کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا ، اور یہ انقلاب کا معجزہ تھا جو وہ ان حالات سے بچ کرفرار کر  گیا۔  کیونکہ اگر بنی صدر کو ایران میں گرفتار کر کے پھانسی دی جاتی تو ہمارے کم از کم ایک یا دو ملین نوجوان اسلام اور انقلاب سے کٹ جائیں گے۔  خدا نے ایسا کردیاکہ اس نے اپنی داڑھی اور مونچھیں مونڈیں اور سینگھار کیا عورتوں کے کپڑے پہنے اور ہوائی جہاز کے بیت الخلا میں چھپ کر فرار ہو گیا اسکا راز فاش ہوچکاتھا۔ جب ان نوجوانوں نے حقیقت کا ادراک کیا تو انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا اور انقلاب کے لیے ایک نئی قوت بن گٸے۔ [1]

 

 [1] قیصری ، مہدی ، یادداشتیں حجت الاسلام والمسلمین  علی اکبر مہدوی خراسانی ، اسلامی انقلابی دستاویزی مرکز ، 2016 ، صفحہ 151۔



 
صارفین کی تعداد: 1944


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔