شاہ کے زمانے میں مذہبی کتابیں کیسے لکھیں گٸی؟

ترجمہ: ابوزہرا

2021-8-31


ایک پرعزم گروپ (ڈاکٹر غفوری اور ڈاکٹر باہنر کے ساتھ) ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اسلام ، ایمان ، عمل ، جدوجہد ، جہاد ، عبادت اور فضیلت کو نوعمروں اور یہاں تک کہ ابتدائی اسکول کے دوسرے سال کے طالب علموں تک پہنچاٸیں۔  اور ان کے لیے آیات اور حکایتیں اور تعمیری کہانیاں اور ان سالوں میں انسان کے خیالات اور جذبات کو پڑھاٸیں۔ اس کام کے لیے ایک انتہائی درست منصوبہ درکار تھا۔  


یہ ہمارے لیے واقعی بہت اہم تھا کہ یہ منصوبہ نامکمل نہیں رہے۔ دوستوں کو دینی تعلیم کی کتابیں اور آیات کی کتاب ، قرآن اور اس کے پمفلٹ ، دونوں پرائمری اور مڈل سکول میں لانا اور پڑھانا پڑا ، یہ وہ وقت تھا جب میں زیادہ فعال ہوا۔  مذہبی تعلیمات کی دوسری یا تیسری کتاب کے (آخر میں) ہم نے چند کہانیاں دی تھیں۔  ہم نے خواتین جنگجوؤں کی مثالیں ، اور اس وقت کے ظالموں کے ساتھ ان کی گفتگو کا حوالہ دیا تھا۔  جیسا کہ میں کہتا ہوں ، ہمارا منصوبہ تھاکہ اسکو یقینی بنانا ہے اورکتابیں اور تفسیر ہمارے دائرے سے باہر نہ جائیں۔

 اب جب کہ کام ہوچکا تھا ، میں آپ کو بتاتا چلو کہ ہم نے کون سا طریقہ استعمال کیا۔ ہم نے یہ کتابیں جلدہی تیار کر لیں ، کیونکہ قواعد کے مطابق کتابیں مارچ تک دی جانی تھیں۔  لیکن ہم ایسی چیز دےرہےتھے جو چھاپی نہیں جا سکتی تھی ، ہم کہتے تھے: ہم اسے دوبارہ درست کریں گے ، اور ہم اسے اس وقت تک کھینچتے رہیں گے جب تک مشن  کوکسی الجھن کاسامنا نا پڑ جاٸے ، اور ہم نے آخری کتاب تک یہ طریقہ ہی اختیارکیا۔  بالکل اسی سال ہم نے آخری کتاب لکھی، تعلیم کا ایک  دفتر تھا ، یہ دفتر قومی اور محب وطن دفتر بن گیا ، اس کا کام انسانیت سے متعلق کتابوں کو کنٹرول کرنا تھا ، یہ دیکھنا کہ بچوں کو کیا تعلیم دی جارہی ہے، اس گروپ کی تیار کردہ کتابوں کی کاپیاں اب دستیاب تھیں، مثال کے طور پر پہلے سال کی مذہبی ہدایات کی نصابی کتاب میں اس کے بہت سے مندرجات کو ختم کر دیا گیا تھا۔  قومی اور محب وطن انتظامیہ کی شکل میں ساواک ایجنٹوں کا واضح بیان یہ تھا کہ ہم نے ایران کے سکولوں میں لڑائی اور جدوجہد کا جذبہ پھیلایا تھا ، اور ہم نے اپنے کام کو اسی نقطہ نظر سے دیکھا۔

 

منبع: خاطرات ماندگار، زندگی آیت‌الله دکتر سیدمحمدحسین بهشتی، به کوشش مرتضی نظری، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چ اول، 1378، ص 149 و 150.



 
صارفین کی تعداد: 1923


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔