ایک جنگی آپریشن کے نازک لمحات کی روداد کمانڈر بیر انوند کی زبانی

۱۳۹ بریگیڈ کا غیر معمولی کمانڈر

جناب بیرانوند جمہوری اسلامی ایران کی فوج میں کمانڈر ہیں۔ جو ۱۹۶۰ء میں فوجی اسکول میں داخل ہوئے اور اس کے بعد فوج میں آگئے۔ آپ ۱۹۸۲ء میں فتح المبین نامی جنگی آپریشن میں دشت عباس کے مقام پر دستہ نمبر ۸۴ کے بریگیڈیئر تھے۔ اور دشت عباس، علی گرہ زد، تینہ، چیخواب کی نہر کے پل، عین خوش کی پہاڑیوں اور چھاؤنیوں، کمر سرخ و تیشہ کن کی پہاڑیوں کو واپس لینے میں آپ کا اہم کردار تھا۔

جنوبی محاذ پر ہونے والے آپریشنز اور سردار عروج کا

مربیوں کی بٹالین نے گتھیوں کو سلجھا دیا

سردار خسرو عروج، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کے سینئر مشیر، جنہوں نے اپنے آبائی شہر میں جنگ کو شروع ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔

عبد الرضا زمانی گندمانی کی یادوں سے

جماران کی حفاظت اور امام ؒ سے ملاقات

جون کی تیسری تاریخ، ۱۹۸۹ ء میں بانی انقلاب اسلامی کے ملکوتی ایام کو یاد دلاتی ہے۔ ایک ایسا مرد جو بادشاہی نظام کو نابود کرکے اب تک کی ایرانی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب رہا اور خود کو ایرانی تاریخ میں واضح مقام دلا سکا۔ اس عرصے میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کے ذہنوں میں جون ۱۹۸۹ء کے واقعات موجود ہیں۔ عبد الرضا زمانی گندمانی بھی اُنہی میں سے ہے جو اُن دنوں جماران میں تھا ، اس کا امام خمینیؒ ، ان کے خاندان سے قریبی تعلق تھا اور اسے اُس سال جون کے گرم دنوں کی بہت سی واقعات یاد ہیں۔ ایران کی اورل ہسٹری سائٹ سے ہونے والی گفتگو آپ کے پیش نظر ہے۔

محترمہ لالہ افتخاری کے ساتھ گفتگو

میں چاہتی ہوں اپنے والد اور شوہر کی شہادت کے حالات صفحات پر منعکس کروں۔

شہدا کے بچے اور ان کی بیگمات وہ افراد ہیں جو دفاع مقدس کے وارث کے عنوان سے آج بھی ان کی یادوں اور ان کی خو اہشوں اور تمناؤں کو زندہ رکھ کر، ان کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ محترمہ لالہ افتخاری نویں پارلیمنٹ کی رکن، ان لوگوں میں سے ہیں جو شہید کی صاحبزادی ہونے کے ساتھ ساتھ، ایران اور عراق کی جنگ میں شوہر کے شہید ہوجانے کا بھی افتخار رکھتی ہیں۔ اور انھوں نے ان دونوں شہیدوں کی یادوں کو اپنی زندگی میں زندہ و جاوید رکھا ہوا ہے۔

جب تک خرمشہر آزاد نہیں ہوتا واپس نہیں آئیں گے

فیروز احمدی ایک بسیجی اور روٹی پکانے والا ہوا کرتا تھا جو آٹھ سالہ جنگ میں ایک نگہبان اور توپخانے کے افسر کے طور پر پہچانا گیا اور اس کے ریکارڈ میں ۱۱ سے زیادہ آپریشنز میں شرکت کا اندراج ہے۔ جناب احمدی کو ملک کے مغربی اور جنوبی محاذوں کے بہت سے واقعات یاد ہیں اور اُنہوں نے اس بارے میں ایران کی اورل ہسٹری کی سائٹ سے بات چیت کی ہے۔

امریکی نظام اور انگریزوں کی ساخت

اکاونٹنگ انسٹیٹیوٹ، جواد ضیائی کی زبانی

ماڈرن ازم یا نو گرائی کی جانب حرکت، مختلف عوامی حلقوں کے اجتماعی ڈھانچوں میں تبدیلی اور اسی طرح ایرانی عوام کی اقتصادی سطح میں تبدیلی کا باعث بنی۔ تیل کی مصنوعات کا ملک میں درآمد ہونا، ان تبدیلیوںمیں اجتماعی و اقتصادی پہلووں کی نسبت کافی حد تک شدت کا سبب بنا۔ اسی طرح صنعتی ترقی اور صنعت کار طبقہ کے وجود میں آنے نے ، معاشرے کی دیگر ضروریات کا زمینہ ہموار کیا۔

غلام حسین دربندی اور نوروز کی یادیں

عید اور ایثار

بریگیڈیئر جناب غلام حسین دربندی ، عراق کی جانب سے ایران پر مسلط جنگ میں صوبہ خوزستان کے شہر زرہی کے لشکر ۹۲ میں افسر کے فرائض انجام دے رہے تھے، ذیل میں عید نوروز کے ان ایام، کی یادیں ہیں جو انہوں نے عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران گذارے۔

ولی اللہ احمدی سے گفتگو

امام خمینی کو قید میں دیکھا تھا

مشکینی صاحب آئے میر ا ہاتھ پکڑا اور مجھے اندر لے کر چل دیے۔ کہنے لگے:"میری بیٹی کوفتہ بنا کر لائی تھی، مجھے بہت پسند ہیں، میری خواہش ہے کہ آپ لوگ میرے ساتھ کھانا کھائیں۔ ہم نے کوفتے بھی کھائے اور انہوں نے مجھے ۷۰ ہزار تومان بھی دیے۔

راہیان نور کے پہلے روایت گر"خادم الشہدائے فکہ "سے گفتگو

واقعات سن کر سامعین کیسے متاثر ہوتے ہیں

مسلط کردہ جنگ جن علاقوں میں لڑی گئی، لوگ وہاں زیارت اور شہداء کی یاد منانے جاتے ہیں ان کاروانوں کو راہیان نور کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں روایت گر افراد اس دور کے واقعات سے لوگوں کے دلوں میں وہی تصاویر پیش کرتے ہیں کہ جب ظلم و بربریت کے نشے میں چور عراقی حکمران نے امریکہ اور دیگر طاقتوں کی مدد سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کیا تھا۔ لیکن خداوند متعال کے فضل سے وہ معجزات دیکھنے کو ملے کہ جن کوسننے کے بعد انسان کا دل نورانیت سے لبریز ہوجاتا ہے۔

شہید تقوی فر - انکی زوجہ کی زبانی

حاجی حمید، صدام کے قتل کا منصوبہ بنا چکے تھے

۱۹۸۰ء میں حمید تقوی فر سے میری شادی ہوئی، وہ اپنے والد کے ساتھ میرا ہاتھ مانگنے آئے تھے۔ شادی کے لئے انکا معیار سادگی اور اخلاص تھا۔ شادی کے وقت بھی وہ اپنی کسی ذمہ داری کو انجام دیکر لوٹے تھے، اپنی سادہ سی گاڑی اور فوجی لباس میں ملبوس مجھے لینے آئے اپنے والد کو انکے دفتر سے لیا اور سپاہ پاسداران کے ایک دفتری ہال میں ہماری شادی کی تقریب ہوئی۔
...
9
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔