صدامی فورسز کے سامنے جدوجہد کرنے والوں سالوں میں محمد مجیدی کی یادیں۔ دوسرا حصہ

سات ایسے واقعات جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا

محمد مجیدی، دفاع مقدس کے سالوں میں محاذ پر گئے تاکہ کربلائے ۵ آپریشن کے مراحل میں شرکت کرسکیں؛ لیکن جنگی محاذوں پر صرف دس دن رہنے کے بعد دشمن کی بعثی افواج کے قیدی بن جاتے ہیں اور اپنی جوانی کے بہترین چار سال صدامی افواج کے کیمپوں میں گزار تے ہیں۔

چند آپریشنز سے وابستہ مجید یوسف زادہ کی یادیں

شیراز، اردبیل، کرمان، تہران وغیرہ کے شجاع و دلاور

مجید یوسف زادہ ایران پر مسلط کی گئی عراقی جنگ کے زمانے میں پانچویں نصر اور گیارہویں عاشورا لشکرمیں بسیجی مجاہد اور پاسدار رہے۔ وہ آجکل کنسٹرکشن کمپنی میں انجینئر اور ملازم ہیں۔

صدامی فورسز کے سامنے جدوجہد کرنے والے سالوں میں محمد مجیدی کی یادیں۔ پہلا حصہ

۱۰ دن کا محاذ اور ۴ سالہ اسیری

محمد مجیدی، دفاع مقدس کے سالوں میں محاذ پر گئے تاکہ کربلائے ۵ آپریشن کے مراحل میں شرکت کرسکیں؛ لیکن جنگی محاذوں پر صرف دس دن رہنے کے بعد دشمن کی بعثی افواج کے قیدی بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی کے بہترین چار سال صدامی افواج کے کیمپ میں گزار چکے ہیں۔ جناب مجیدی ایرانی اورل ہسٹری سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے سالوں میں اپنی یاد داشت کے دریچوں کو وا کرتے ہیں۔

رحیم قمیشی سے گفتگو، آبادان کا محاصرہ توڑنے سے لیکر لاپتہ ہونے والے سالوں تک

کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ بچ گیا ہوں

رحیم قمیشی جو صوبہ خوزستان میں پیدا ہوئے، یہ ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے ابتدائی ایام میں ہی رضاکارانہ طور پر دفاع مقدس کیلئے محاذ پر چلے گئے۔۲۵ دسمبر سن ۱۹۸۶ء کو اور جب کربلائے ۴ آپریشن کا آغاز ہوا تو صدام کے فوجیوں نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان کے ۴ سال اسی قید میں گزرے

(دشمن کی ) قید سے آزاد ہونے والے خوزستانی مجاہد کی داستان

آزادی کے وقت اور آپریشن سے پہلے ہونے والی الوداع کی تکرار

آٹھ سالہ دفاع مقدس میں اسیر ہونے والے سپاہی کبھی بھی آزادی کے ان یادگار لمحوں کو نہیں بھلا سکتے جب وہ عراق کی بعث پارٹی کی جیلوں اور ان کی اذیت و آزار سے آزاد ہوئے۔ اسی لئے ان دنوں کو دسیوں سال گزر جانے کے باوجود ان ایام کے واقعات اور باتیں ذہنوں میں باقی رہیں گی۔ قیدیوں کے آزاد ہونے کے دن کی مناسبت سے ہم نے عراق کی بعث پارٹی سے رہائی پانے والے قیدی جو کہ جنگ میں زخمی بھی ہوئے تھے، اصغر بایمانی نژاد سے آزاد ہونے والے دونوں اور ایران واپسی کے ایام کے بارے میں گفتگو کی ۔

محرم آپریشن جنرل حسن نامی کی زبانی

دویرج اور حمرین میں معرکہ

بریگیڈیئر جنرل محمد حسن نامی ایران عراق جنگ (مسلط کردہ جنگ) کے کمانڈروں میں سے ایک ہیں اور حال حاضر میں دفاع مقدس کے ادارہ برای تحفظ آثار و اقدار کے نائب سربراہ ہیں۔ آپ نے سن ۱۹۵۳ ء میں شہر جاسب جو مرکزی صوبہ میں واقع ہے، میں آنکھ کھولی۔ جنگ میں محرم آپریشن میں ایک بٹالین حمزہ ۲۱ کے کمانڈر تھے۔

کچھ اہم جنگی آپریشنوں اور شہید دستوارہ کے بارے میں عبد الرضا طرازی کی گفتگو

مختلف وائرلیس اور جادوئی کوڈز لے جانے والی ایمبولنس

عبد الرضا طرازی، بٹالین محمد رسول اللہ کے ڈویژن ۲۷ کے ایک معمولی سپاہی ہیں۔ جنہوں نے بدر، خیبر، و الفجر ۸ اور آٹھ سالہ دفاع مقدس میں مختلف آپریشنز میں شرکت کی۔ انھوں نے جنگ کے دنوں کی یادوں، مختلف آپریشنز اور افسروں کی ہمراہی کے بارے میں زبانی تاریخ کی ویب سائٹ سے گفتگو کی۔

یادوں پر مشتمل کتاب "بچہ ھای حاج قاسم" کے مصنف سے گفتگو

ہم ان یادگار لمحات کیلئے پریشان ہیں، جو ذہنوں سے محو ہورہے ہیں

دفاع مقدس سے مجھے بہت لگاؤ تھا۔ شہدا کے جنازوں میں شرکت کیا کرتا تھا اور ان کیلئے آنسو بہاتا تھا۔ ۱۰، ۱۲ سال کی عمر سے جب میں نے شعر پڑھنے شروع کیئے تو جنگ، میدان جنگ، شہادت اور قیدیوں کی آزادی کیلئے میں نے کئی اشعار کہے۔ اب تک ۱۵ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں سے ۱۳ شعروں کی کتابیں ہیں اور ۲ نثر کی ہیں۔

آرٹ گیلری سے فرنٹ لائن تک

اصغر نقی زادہ، اُس کا کیمرہ اور ہینڈ گرنیڈ!

اصغر نقی زادہ، تھیٹر، سینما اور ٹی وی کے آرٹسٹ، جنہوں نے اپنی کارکردگی کا آغاز آرٹ گیلری سے کیا ہے، عراق کی ایران پر مسلط جانے والی جنگ کے آغاز سے ہی ایک فوٹو گرافر کے عنوان سے جنگی محاذوں پر گئے تاکہ جنگ کے ایک ایک لمحہ کو تصویر کے سانچے میں ڈھال دیں۔

دو شہیدوں کے دو واقعات

قلعہ بدر اور کربلائے یک کا مورچہ

حمید رضا عسگریان ایک ایسے سپاہی تھے جنہوں نے جنگ کے تمام عرصہ میں وائرلیس اٹھائے رکھا تاکہ ہر آپریشن کی فتح کی اطلاع پہنچا سکیں۔ جناب عسگریان جنہوں نے اُن وقتوں میں بہت زخم کھائے ہیں، انھیں ابھی بھی جنگ کے واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔
...
8
...
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔